کبھی اہل محبت یوں نہ خوف جسم و جاں کرتے

کبھی اہل محبت یوں نہ خوف جسم و جاں کرتے
اگر شیخ و برہمن جشن ناقوس و اذاں کرتے


نوازش کاش مجھ پر اتنی میرے مہرباں کرتے
کبھی دل کی تسلی کے لئے بھولے سے ہاں کرتے


ہمارے جذبۂ تعمیر سے ہوتے اگر واقف
تو صدیوں برق کے شعلے طواف آشیاں کرتے


فسردہ یوں نہ ہوتے غنچہ و گل موسم گل میں
اگر دل سے چمن کی آبیاری باغباں کرتے


نوید فصل گل آتے ہیں دل اپنا تڑپ اٹھا
اسیر غم ہیں ورنہ ہم بھی سیر گلستاں کرتے


فضائے ساحل امید اگر کچھ راس آ جاتی
تو ہم کیوں نذر طوفاں کشتئ عمر رواں کرتے


ہمیں بھی مل گئی ہوتی سند منزل شناسی کی
سلیقے سے اگر تقلید میر کارواں کرتے


کبھی باد صبا بن کر کبھی جاروب کش ہو کر
تمنا تھی مسلسل ہم طواف آستاں کرتے


تھا چپ رہنا ہی بہتر ان کی بزم ناز میں عاجزؔ
کوئی غم آشنا ہوتا تو شرح داستاں کرتے