کام عشق بے سوال آ ہی گیا

کام عشق بے سوال آ ہی گیا
خودبخود اس کو خیال آ ہی گیا


تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر
دل کے آئینے میں بال آ ہی گیا


دو مری گستاخ نظروں کو سزا
پھر وہ نا گفتہ سوال آ ہی گیا


زندگی سے لڑ نہ پایا جوش دل
رفتہ رفتہ اعتدال آ ہی گیا


حسن کی خلوت میں دراتا ہوا
عشق کی دیکھو مجال آ ہی گیا


غم بھی ہے اک پردۂ اظہار شوق
چھپ کے آنسو میں سوال آ ہی گیا


وہ افق پر آ گیا مہر شباب
زندگی کا ماہ و سال آ ہی گیا


بے خودی میں کہہ چلا تھا راز دل
وہ تو کہئے کچھ خیال آ ہی گیا


ہم نہ کر پائے خطا بزدل ضمیر
لے کے تصویر مآل آ ہی گیا


ابتدائے عشق کو سمجھے تھے کھیل
مرنے جینے کا سوال آ ہی گیا


لاکھ چاہا ہم نہ لیں غم کا اثر
رخ پہ اک رنگ ملال آ ہی گیا


بچ کے جاؤ گے کہاں ملاؔ کوئی
ہاتھ میں لے کر گلال آ ہی گیا