کالے دیوؤں کا سایہ

غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالے دیوؤں کا خوفناک سایہ بستی کی خاموش فضا پر آندھی بن کر چھا جاتا اور شل زدہ ذہنوں میں ماتم کی دھنیں بجنا شروع ہوجاتیں ۔ خوف کا سائرن بجتے ہی خون آلودہ دلوں کی دہشت ناک لہروں سے غمگین سوچوں میں وحشت ناک ارتعا ش پیدا ہوجاتا۔ معصوم بچے رات بھر ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتے اور والدین ساری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹنے پر مجبور ہوجاتے۔
برفیلے پہاڑوں کے دامن میں بستی کے بیچوں بیچ کالے دیوؤں کی ویران گھاٹی کے پھاٹک کے سامنے برفیلے گالوں کے درمیان مرے ہوئے کتوں کا عفونت انگیز ڈھیر راہ چل رہے لوگوں پر وحشت طاری کررہا تھا ۔ خون میں لت پت یہ کتے اپنی عادت نہ چھوڑ نے پر اپنی جان کھوبیٹھے تھے۔ رات کے اندھیر ے میں جب کالے دیوبستی میں گھسنے کی کوشش کر تے تو ان کے ناپاک عزائم کو بھانپتے ہی ان بے زبانوں کا احتجاج شروع ہو جاتا۔ ان بے زبانوں کا احتجاج جب کالے دیوؤں کی ناکامی کا سبب بنتا گیا تو انہوں نے ان کتوں کو بستی والوں کے وفادار محافظ سمجھ کر انہیں ہلاک کر نے کا آپریشن شروع کردیا اور اس بے زبان مخلوق کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہوا۔
کالے دیوؤں کا یہ منحوس سایہ کئی دہائیوں سے بستی کے اوپر چھایا ہوا تھا اس جنت نُما بستی کے روح پر ورمشک بار ماحول کو ان بدصورت کالے دیوؤں کی بد بودار سانسوں نے پلیگ زدہ بنائے رکھا تھا اور ان خبیث روحوں کی جابرانہ موجودگی کی وجہ سے بستی کے عنبر آگیں چمن زاروں ، چَھر چَھر کرتے آبشاروں ، پر فریب کہساروں اورحُسن خیز سبزہ زاروں پر منحوسیت کے سیاہ سائے چھائے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں یہ چنڈال فطرت بدصورت مخلوق کن بدتہذیب ویرانوں سے نکل کر ہاتھی کے دانت دکھائے بستی کے ریشم مزاج انسانوں کے سروں پر موت بن کر سوار ہوچکی تھی ۔ چمنستان کے باغیرت باغبان لگاتار ان بے غیر ت حملہ آوروں کو بھگانے کے وظائف پڑھتے رہتے تھے، پربستی کا نصیب ہی جانے کہ یہ بد فطرت مخلوق وظائف کے اثر کو بے اثر بنانے کے لئے بستی کے ہی چند کالے بھیڑوں کی ناپاک نفسیات کو اپنے آسیبی حربوں سے متاثر کرجاتے اور وہ کم ظرف شعبد ہ بازاپنے کرتبوں سے ان کی موجودگی کو دوام بخشنے کی راہیں ہم وار کرنے میں اپنے کرتب دکھاتے رہتے ۔
یہ بدفطرت کالے دیوبستی کے کسی بھی گھر میں بے دھڑک گھس جاتے اور اپنی خون خوار آنکھوں کا رعب جماتے ہوئے بستی کے مکینوں کی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ جس طرح سے چاہتے کھلی اڑاتے رہتے۔ اگر کوئی انسان اپنی آن بچانے کے لئے ان درندوں سے الجھ پڑتا تو ان وحشیوں کے خونخوار پنجے اس مظلوم کو نوچ نوچ کر لہولہان کر جاتے اوران کے معصوموں کو پلک جھپکتے ہی جھپٹ کرلے جاتے۔ بستی کے لوگ ان آدم خوروں کے بجائے ان بے زبان کتوں کی وفاداری اور انسان دوستی کے شکر گزار نظر آتے تھے۔ جورات کے گھنے سائے میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بستی کے لوگوں کو بھونکتے بھونکتے ان ظالموں کی آمد کا اشارہ کرتے رہتے۔
پھاٹک کے سامنے مارے گئے کتوں کی بدبو سے جب کالے دیو تنگ آگئے تو انہوں نے بستی کے لوگوں کو حکم جابری سنایا کہ وہ ان خون آلودہ کتوں کو اپنے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر دور کسی نالے میں پھینک دیں ۔ بے بس لوگ حکم جابری کی تعمیل کرتے ہوئے کتوں کو کاندھوں پر اٹھائے جارہے تھے کہ اچانک انہیں مردہ کتوں کے ڈھیر میں ایک خوبصورت نوجوان کی لاش پر نظر پڑی ۔ وہ خوف زدہ ہو کر ڈھیرسے پیچھے ہٹنے لگے۔ انہیں پیچھے ہٹتے ہی کالے دیو آگ بگولہ ہو کر چلانے لگے:
’’سالے ۔۔۔ ! پیچھے کیوں ہٹے۔۔۔ ؟ ان کتوں کو جلد ی جلدی یہاں سے ہٹاؤ، ہوا میں بدبو پھیل رہی ہے۔‘‘
’’ان ۔۔۔ ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے۔‘‘ ایک نوجوان لرزتی آواز میں بول پڑا۔
’’اس کو بھی یہاں سے دفع کر و اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال دو ‘‘ کالی غار سے ایک طنز آمیز آواز آئی۔
’’لیکن۔۔۔!‘‘
’’سوال مت کرو ،نہیں تو تو بھی کُتے کی موت مرے گا۔، سالا‘‘ ایک اور خوفناک آواز نوجوان کے کانوں سے ٹکرائی۔
کالے دیو’’جشن زیتون‘‘ منانے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ بستی کے بچوں کو ہدایت ملی تھی کہ وہ رنگارنگ پروگرام بنانے کے ساتھ ساتھ ’’شاخ زیتون‘‘ کے موضوع پر بھی تقریر تیار کریں۔ دوسرے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ معصوم الوقت نے بھی پروگرام میں شرکت کرنے کا ارادہ کرلیا اور ’’شاخ زیتون‘‘ کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام سامعین سے داد تحسین پائی۔ کالے دیوؤں کا رہبر بھی معصوم الوقت کے امن پسند خیالات سے خوش ہوا اور وہ اپنے امن کے مہان دیوتا کے بنائے ہوئے خوشنما سفید رنگ کبوتر، جس کی چونچ میں’’شاخ زیتون‘‘ رکھی ہوئی تھی، معصوم الوقت کو انعام میں دیتے ہوئے جشن شاستری پڑھنے لگا:
’’ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے کہ بستی کے نوجوانوں میں امن کی روح جاگ اٹھی ہے ۔ ان کی آنکھیں روشنی کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ میںآپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ بستی کے اندر اب کسی قسم کا کالا سایہ نظر نہیں آئے گا۔ آپ لوگ صرف اپنی بستی میں زیتون کے پیڑاگانے کا وعدہ کیجئے۔‘‘
’’جشنِ زیتون‘‘ ختم ہوتے ہی معصوم الوقت خوشنما سفید رنگ کبوتر کو لے کر گھر کی جانب دوڑ پڑا۔ وہ گھر والوں کو اپنے انعام کی خوشخبری سنانے کے لئے بے قرار ہورہا تھا۔ وہ جونہی کالے دیوؤں کی پھاٹک کے قریب پہنچا تو اسے رکنے کی آواز سنائی دی۔ چند منٹوں کے بعد اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ مردہ کُتے اٹھانے کا حکم ملا۔ اس کے انکار کرنے پر کالے دیوؤں کی آنکھوں میں خون پھیلنے لگا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے دیوتا کے خوش نما سفید رنگ کبوتر کو دیکھتے ہی ایک دیو پوچھ بیٹھا:
’’یہ کبوتر تم کو کہا سے ملا؟‘‘
’’جشنِ زیتون والے پروگرام میں شاخِ زیتون سے متعلق میری تقریر سے خوش ہو کر آپ کے رہبر نے مجھے یہ کبوتر انعام میں دے دیا۔ ‘‘ معصوم الوقت نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہمیں شاخِ زیتون کا فلسفہ سکھاتا ہے‘‘یہ کہتے ہوئے کالے دیوؤں نے اسے مردہ کتوں کے ڈھیر پر پھینک دیا۔
’’نہیں۔۔۔ ! یہ سراسر ظلم ہے۔ تمہاری اس وحشت ناک حرکت سے مہان دیوتا کے امن پسند آدیشوں کا خون ہورہاہے۔ آپ صفائی کرم چاریوں کی مدد سے ان کتوں کو یہاں سے ہٹا سکتے ہیں۔‘‘ معصوم الوقت کے منہ سے شاخ نبات کے میٹھے میٹھے الفاظ نکل رہے تھے۔
’’ہمیں شنانتی کا منتر سکھا رہا ہے۔ سالا‘‘ ایک بدصورت دیو اس پر اپنے خونخوار پنجوں سے وار کرتے ہوئے بول پڑا۔
معصوم الوقت کے جسم سے خون کے فوارے نکل پڑے۔ چند ہی لمحوں کے اندر اندر شاخِ نبات کی مٹھاس اس کی شریا نوں میں زہر بن کر دوڑ نے لگی۔ اور مہان دیوتا کا سفید کبوتر جھیل کے سُرخ پانی میں پھڑ پھڑاتے ہوئے سرخ مائل ہوتا گیا۔ کالے بادلوں کی خوفناک بجلیاں چار سو گرجنے لگیں۔ بے بس مخلوق بدحواسی کے عالم میں خون آلودہ کتوں کے ساتھ ساتھ معصوم الوقت کی خون ٹپکتی لاش کو بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے جارہے تھے اور کالی آندھی ان کے شل زدہ کانوں کو کالے دیوؤں کے سرہنگ کا قومی پیغام سُنا رہی تھی:
’’اگر جنت کے وارثین ، اپنے بچوں کے ہاتھوں میں شاخِ زیتون تھما دینگے تو انہیں شاخ نبات سے نوازا جائیگا۔‘‘