کالا پربت
یہ کالا پربت
اور
زار و قطار روتا ہوا جھرنا
یہ بیکل وادیاں
آنکھوں میں آنسو لئے ہوئے
یہ پگڈنڈی کا موڑ
اور تم کہتے ہو
ویرانوں میں نئی روشنی آ گئی
روشنی کی لو میں زندگی آ گئی
لیکن پونم
یہ کالا پربت
مجھے کچھ دیکھنے نہیں دیتا
خوفناک دھواں میری آنکھوں کو
اندھا کئے دیتا ہے
تمہیں کہو میں امید کے سینے پر
جوانی کا ابھارا کیسے دیکھوں
حسین و جمیل تمناؤں کا
شوخ انداز کیسے دیکھوں
یہ کالا پربت
میری دنیا سے روشنی چھین رہا ہے
لیکن کیا ایسا ہونا لازمی ہے
ان کی آنکھیں بھی تو کالی ہیں
پھر ان میں اتھاہ روشنی کیوں ہے
شاید کالا پربت بھی
آنکھیں کھولے تو اس کی روشنی
میری آنکھوں میں سما کر
میری نگاہ کو امر کر دے