جنوں کے دشت میں نکلیں وفا کی حد کر دیں

جنوں کے دشت میں نکلیں وفا کی حد کر دیں
اٹھا کے ایڑیاں اپنی دراز قد کر دیں


محبتوں کے چمن پھر سے لہلہائیں گے
یہ نفرتوں کے سبھی باب قید حد کر دیں


تمہارے ہجر کے موسم جنہیں میسر ہوں
وہ برگ و بر کی بہاروں کو مسترد کر دیں


جو اہتمام بغاوت کا پیش خیمہ ہوں
خلوص دل سے وہ ظلمت کے باب سد کر دیں


نگاہ ناز سے دیکھیں تو بہر آزادی
قفس کے سارے پرندوں کو نامزد کر دیں


اگر ہوں رشتے اجالوں سے معتبر پھر تو
چراغ بڑھ کے اندھیروں کی خود مدد کر دیں


ہمارے شہر میں ایسے بھی لوگ ہیں انجمؔ
وہ جس کو دیکھ لیں اس کو ہی مستند کر دیں