جو تیز دوڑتے تھے بہت جلد تھک گئے
جو تیز دوڑتے تھے بہت جلد تھک گئے
ہم دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دور تک گئے
اترن پہن کے شاہ کی خوش ہیں مصاحبین
سورج سے بھیک مانگ کے ذرے چمک گئے
یاروں نے زخم دل کا مرے یوں کیا علاج
آئے تھے خون پونچھنے رکھ کر نمک گئے
آنکھوں کو انتظار میں پردے پہ ٹانک کر
چوکھٹ سے پوسٹر کی طرح ہم چپک گئے
وہ شاعری بھی ہے کہ نہیں سوچئے کمالؔ
نام غزل پہ آپ بہت کچھ تو بک گئے