جو سکوں نہ راس آیا تو میں غم میں ڈھل رہا ہوں
جو سکوں نہ راس آیا تو میں غم میں ڈھل رہا ہوں
غم زندگی سے کہہ دو کہ میں رخ بدل رہا ہوں
میں بنا ہوں اشک غم خود تمہیں کیوں میں کھل رہا ہوں
یہ نکالو میرا قصہ کہ میں خود نکل رہا ہوں
تری بزم خود غرض نے کئی رنگ بدلے لیکن
میں حریف شمع بن کر اسی طرح جل رہا ہوں
یوں ہی ٹالتے رہے تم مری خواہشوں کو لیکن
مگر اب ذرا سنبھلتا میں بہت مچل رہا ہوں
رہ شوق میں انہیں بھی لگی میرے ساتھ ٹھوکر
وہ سنبھل چکے ہیں لیکن میں ابھی سنبھل رہا ہوں
وہی عزم مستقل ہے رہ زندگی میں اخترؔ
نہ غم شکستہ پائی نہ میں ہاتھ مل رہا ہوں