جو مدتوں میں کسی شوخ کا شباب آیا

جو مدتوں میں کسی شوخ کا شباب آیا
رہین دامن و منت کش حجاب آیا


نمود شام ہوئی وقت اضطراب آیا
جہان عشق و محبت میں انقلاب آیا


جنوں میں زیست تھی اپنی طلسم بیداری
قضا نے آ کے سلایا تو ہم کو خواب آیا


نہ دل میں درد ہی باقی ہے اب نہ آنکھ میں اشک
اخیر وقت ہے پایان اضطراب آیا


بس اب تمام ہوا انتظار قاصد کا
کہ زندگی کی طرف سے ہمیں جواب آیا


غضب تھی بزم میں ساقی کی طرز مستانہ
بھرا ہوا نہ کوئی ساغر شراب آیا


نظام عالم فرقت خلاف قدرت تھا
نہ ماہتاب ہی نکلا نہ آفتاب آیا


نظرؔ اقامت دنیا کی ختم مدت ہے
کہ ہم بھی پیر ہوئے وقت پا تراب آیا