جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر
جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر
ایسی لڑکی آج تک دیکھی نہیں ہے مال پر
آنکھ میں سائے کی خواہش پیٹ میں روٹی کی بھوک
پھر بھی کیسی تازگی تھی پھول جیسے گال پر
اس کو دیکھا تو اسے بس دیکھتا ہی رہ گیا
جیسے اک زخمی سی تتلی ایک ٹوٹی ڈال پر
جانے کیسے اس کو میری پیاس کی پہنچی خبر
لائی چاندی سے کٹورے سونے ایسے تھال پر
پتلی پتلی روٹیوں کو چوپڑے گی ہاتھ سے
ڈال کر تڑکا وہ مجھ کو دے گی پتلی دال پر
میری نظروں سے چھپا کر اس سے آنکھیں پونچھ لیں
اس نے میرا نام لکھ رکھا تھا جس رومال پر