Iftikhar Qaisar

افتخار قیصر

  • 1937

افتخار قیصر کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے

    ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے کالے سورج کی ضیا سے شہر اندھا ہو گیا خون میں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر

    اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر سارے منظر ٹوٹ گئے اور کام نہ آیا شہر بے گھر ہونا بے گھر رہنا سب اچھا ٹھہرا گھر کے اندر گھر نہیں پایا شہر میں پایا شہر سات سمندر پار بھی آنکھیں میرے ساتھ نہ آئیں چاروں جانب خواب ہیں میرے اور پرایا شہر کالے شہر کو روشن رکھا شہر کے لوگوں ...

    مزید پڑھیے

    جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر

    جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر ایسی لڑکی آج تک دیکھی نہیں ہے مال پر آنکھ میں سائے کی خواہش پیٹ میں روٹی کی بھوک پھر بھی کیسی تازگی تھی پھول جیسے گال پر اس کو دیکھا تو اسے بس دیکھتا ہی رہ گیا جیسے اک زخمی سی تتلی ایک ٹوٹی ڈال پر جانے کیسے اس کو میری پیاس کی پہنچی خبر لائی ...

    مزید پڑھیے

    مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا

    مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا مرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا مرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے بپھرتے پانیوں کو اب سہارا کون دے گا بدن میں ایک صحرا جل رہا ہے بجھ رہا ہے مرے دریاؤں کو پہلا ...

    مزید پڑھیے

    تری آواز میں بھی کوئی آوازہ نہیں ہوتا

    تری آواز میں بھی کوئی آوازہ نہیں ہوتا تری باتوں سے اب تو کوئی اندازہ نہیں ہوتا کبھی بیٹھک تری دوپہر میں آباد رہتی تھی کھلا اب شام کو بھی گھر کا دروازہ نہیں ہوتا کبھی وہ اک اشارے سے سمجھ جاتا تھا ساری بات جتن کرنے سے بھی اب اس کو اندازہ نہیں ہوتا بہت ہی بن سنور کر آج کل گھر سے ...

    مزید پڑھیے

تمام