جو کچھ نظر پڑا مرا دیکھا ہوا لگا
جو کچھ نظر پڑا مرا دیکھا ہوا لگا
یہ جسم کا لباس بھی پہنا ہوا لگا
جو شعر بھی کہا وہ پرانا لگا مجھے
جس لفظ کو چھوا وہی برتا ہوا لگا
دل کا نگر تو دیر سے ویران تھا مگر
سورج کا شہر بھی مجھے اجڑا ہوا لگا
اپنا بھی جی اداس تھا موسم کو دیکھ کر
اس شوخ کا مزاج بھی بدلا ہوا لگا
پاشیؔ سے کھل کے بات ہماری بھی کل ہوئی
وہ نوجوان تو ہمیں سلجھا ہوا لگا