جو کل حیران تھے ان کو پریشاں کر کے چھوڑوں گا

جو کل حیران تھے ان کو پریشاں کر کے چھوڑوں گا
میں اب آئینۂ ہستی کو حیراں کر کے چھوڑوں گا


دکھا دوں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے
تماشائے فراواں کو فراواں کر کے چھوڑوں گا


کیا تھا عشق نے تاراج جس صحن گلستاں کو
میں اب اس پر محبت کو نگہباں کر کے چھوڑوں گا


عیاں ہے جو ہر اک ذرے میں ہر خورشید میں اجملؔ
میں اس پردہ نشیں کو اب نمایاں کر کے چھوڑوں گا