جو بیتی ہے جو بیتے گی سب افسانے لگے ہم کو

جو بیتی ہے جو بیتے گی سب افسانے لگے ہم کو
اسے دیکھا تو اپنے خواب ہی سچے لگے ہم کو


انہیں دیکھا تو جیسے پر شکستہ کوئی طائر ہو
وہ اپنی ڈار سے بچھڑے تھکے ہارے لگے ہم کو


بہت ناراض تھے خود سے کسی سے کچھ نہیں بولے
وہ اک کونے میں یوں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو


سمجھتے ہی نہ تھے سمجھایا ان کو راستہ دل کا
کئی نقشوں کو پھیلایا کئی گھنٹے لگے ہم کو


وہی افسانے دنیا کے اب ان سے ہم کو کیا لینا
کبھی اکتا گئے ان سے کبھی اچھے لگے ہم کو


ذرا ہٹ کر جو اپنے آپ کو کچھ دور سے دیکھا
تو جن باتوں پہ اتنا روئے تھے قصے لگے ہم کو


انہیں دنیا کا ایسا موہ سوچو تو ہنسی آئے
وہ ستر سال کے ہوں گے مگر بچے لگے ہم کو


بچا کر لائے اس تنہائی کو ہم بھیڑ سے مصحفؔ
پھر اک رکشا میں بیٹھے اور بڑے دھکے لگے ہم کو