جی بھر کے کبھی یار کا جلوہ نہیں دیکھا

جی بھر کے کبھی یار کا جلوہ نہیں دیکھا
دیکھا بھی تو اس طرح کہ گویا نہیں دیکھا


مرنے کا نہیں غم مگر اس بات کا غم ہے
اس نے مرے مرنے کا تماشا نہیں دیکھا


جھرمٹ میں رہے غمزۂ تمکین و حیا کے
خلوت میں بھی ان کو کبھی تنہا نہیں دیکھا


کس زور پہ کس جوش پہ ہے ان کی جوانی
تھمتے کبھی سینے پہ دوپٹہ نہیں دیکھا


آنکھوں میں پھرے اور وہ آنکھوں سے چھپے بھی
آنکھوں نے اس انداز کا پردہ نہیں دیکھا


خلوت میں جگرؔ یاد کیا کرتے ہو کس کو
ملتے تمہیں لوگوں سے زیادہ نہیں دیکھا