جھوٹے وعدوں پر تمہاری جائیں کیا
جھوٹے وعدوں پر تمہاری جائیں کیا
جانتے ہیں تم کو دھوکا کھائیں کیا
پرسش اپنے قتل کی ہونے لگی
داور محشر کو ہم بتلائیں کیا
ان کی محفل حیرت عالم سہی
غیر ہم پہلو جہاں ہو جائیں کیا
خون دل کھانے سے کچھ انکار ہے
جب نہیں اے لذت غم کھائیں کیا
ناصح مشفق کو سمجھانا پڑا
اس سمجھ پر تم کو وہ سمجھائیں کیا
غیر نے رہ کر جہنم کر دیا
ہیں مسلماں تیرے گھر ہم آئیں کیا
ہم سے ان سے بات کیا باقی رہی
ہم کہیں کیا اور وہ فرمائیں کیا
ہے پشیمانی میں اقرار خطا
قتل کر کے مجھ کو وہ پچھتائیں کیا
آئیں گے پھر بھی وہی عشرت کے دن
انقلاب دہر سے گھبرائیں کیا
مر ہی کر اٹھیں گے تیرے در سے ہم
آ کے جب بیٹھے تو پھر اٹھ جائیں کیا
دل کو کھوئے ایک مدت ہو گئی
اے اثرؔ اب ڈھونڈنے سے پائیں کیا