جراثیموں بھری سوئی سے تن کو سی رہے ہیں

جراثیموں بھری سوئی سے تن کو سی رہے ہیں
دوائی زہر سی ہے زہر بھی تو پی رہے ہیں


ہمارا سانس ہی سرطان بن جائے نہ دل کا
ہم ایسی حبس آمیزہ ہوا میں جی رہے ہیں


قرنطینہ میں رکھے ہوں یا احراموں کے اندر
بدن عبرت سرا ماحول پر طاری رہے ہیں


تگ و تاز نفس ہے موت کے مد مقابل
لہو انسان کا نادیدہ کیڑے پی رہے ہیں


سرشت آدمی میں ہارنا شامل نہیں ہے
مسائل جو بھی ہیں حالات جیسے بھی رہے ہیں


تو کیا ہے گر ملا دیں جھوٹ اور سچائی کے جین
وہ ایسے تجربے ویسے بھی تو کر ہی رہے ہیں


نئی دنیاؤں کے جو پاسورڈ سوچے ہیں ہم نے
وہ عاصمؔ زندگی کی ابتدائی کی رہے ہیں