جنم جہنم-۲

وہ جو زِیست کی نئی شاہ راہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اُس کا دَامن گذر چکے لمحوں کے کانٹوں سے اُلجھا ہی رہا۔ اُس نے اَپنے تئیں دیکھے جانے کی خواہش کا کانٹا دِل سے نکال پھینکا تھا ‘مگر گزر چکے لمحے اُس کے دِل میں ترازو تھے۔
’’یہ جو گزر چکے لمحے ہوتے ہیں نا! یہ دراصل جو نکوں کی طرح ہوتے ہیں
لمحے۔ قطرہ قطرہ خُون پینے والے۔ اَندر ہی اَندر سے چاٹنے والے‘‘
اس کے سامنے زیست کی لمبی شاہ راہ تھی۔
اور اِرادہ تھا کہ وہ آگے بڑھتی رہے گی۔
مگر یادیں۔؟
اس نے انہیں پٹخ کر پرے پھینکا اور حتمی فیصلہ دے دیا کہ وہ انہیں قریب بھی نہ پھٹکنے دے گی۔
’’مگر یہ جو یادیں ہوتی ہیں نا! یہ پالتو بلی کی طرح ہوتی ہیں۔
دھتکارو‘مارو‘ نکال دو‘ پھر پلٹ آتی ہیں۔
اور جب پلٹ آتی ہیں نا!۔ تو یوں سارے میں اتراتی پھرتی ہیں جیسے وہ سرے سے نکالی ہی نہ گئی ہوں۔
یہ جو نکلنا اور نکالنا ہوتا ہے نا! اِن کے بیچ انا کا فاصلہ ہوتا ہے۔
نکلو تو اَنا انگلی تھامے آگے آگے ہوتی ہے‘ نکالے جاؤ تو قدموں تلے کچلی جاتی ہے۔‘‘
پہلے پہل وہ اس فیصلے پر پہنچنے میں اُلجھی رہی کہ وہ نکلی تھی یا نکالی گئی تھی؟
اور جب وہ فیصلہ نہ کر پائی تو اس کا دھیان یادوں کی جونکوں کی طرف ہوگیا۔
’’یہ جو دھیان ہوتا ہے نا! گرگٹ کی طرح ہوتا ہے۔
رنگ بدلتا ہوا۔ پل میں ایسا پَل میں ویسا
چکنا یوں کہ قابو میں نہیں آتا۔ پھسل پھِسل جاتا ہے۔‘‘
اب وہ کہ جس کا دِھیان قابو میں نہ تھا۔
اور جس کے اندر یادوں کی جونکیں مسلسل مگر قطرہ قطرہ خُون پیتی تھیں۔
اُس کے سامنے زیست کی لمبی شاہ راہ تھی۔
اس شاہ راہ پر اُسے آگے بڑھنا تھا۔
اس کے زادِ سفر میں پہلے پہل اُمید کی چمک تھی‘ جو راستہ دکھاتی تھی
حوصلہ تھا‘ جو بڑھاوا دیتا تھا
سپنوں کی خُوِشبو تھی‘ جو اسے مدہوش رَکھتی تھی۔
مگر اب کچھ نہ تھا۔
نہ وہ تھا۔
نہ یہ تھا۔
بس تھی تو ایک لمبی شاہ راہ تھی جس کے ماتھے پر زیست کی تہمت دَھری تھی
بے شمار مگر ندیدی آنکھیں تھیں
لمبے لمبے مگر مکروہ ہاتھ تھے
بھاری‘ مضبوط اور سفاک قدم تھے
آنکھیں بدن چیرتی تھی‘ ہاتھ مسلتے تھے اور قدم کچل کچل دیتے۔
اور وہ کہ جسے بہت پہلے یہی کچھ پانے کی حسرت تھی پہلے پہل لذت کے پیالے آبِ حیات سمجھ کر پیتی رہی
پیتی رہیاور جیتی رہی۔
کس قدر سرور تھا‘ نشہ تھا‘ مٹھاس تھی۔
’’یہ جو نشہ ہوتا ہے نا! ۔اوّل اوّل یہی زِندگی کا حاصل ہوتا ہے۔
مگر آخر کار زِندگی نفی ہو جاتی ہے اور نشہ ہی نشہ رہ جاتا ہے۔‘‘
جب زِندگی منہا ہوگئی
اور لذّت بھی یکسانیت نے نگل لی۔
تو بدن کھوکھلا ہو گیا۔
اور یوں بجنے لگا جیسے پھٹا ہوا ڈھول ہوتا ہے۔
تب اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا
اسے کچھ نظر نہ آیا۔
جو نظر آئے تو وہ خواب تھے‘ جو بے تعبیر تھے۔
’’یہ خواب ہوتے ہیں نا!۔یہ دراصل نا آسُودہ خواہشوں کا عکس ہوتے ہیں۔‘‘
اوریہ اُس کی کیسی ناآسُودہ خواہشیں تھیں‘جو وہ سیراب ہو کر بھی پیاسی کی پیاسی تھی
اور اس چشمے کو پلٹ پلٹ کر دیکھتی تھیں جو سراب سے بھرا ہوا تھا
’’یہ جو سراب ہوتا ہے نا!۔یہ حقیقت ہوتی ہے۔
اور یہ جو حقیقت اور سراب کو الگ الگ شے سمجھنا ہوتا ہے نا!یہ محض ہمارے شعور کا التباس ہے۔‘‘
اور جو پیچھے پلٹ پلٹ کر خشک چشمے کو دیکھتی تھی تو اُسے وہ لبالب بھرا ہوا لگتا تھا۔ اور اَپنی راہ میں آنے والے اُچھلتے کودتے پانی کو دیکھتی تھی تو وہ صحرا کی اُڑتی دُھول لگتی تھی
وہ سوچتی تھی ۔ اَصل کیا ہے؟
اس نے سامنے دُور اُفق میں گم ہوتی شاہ راہ کی جانب دِیکھا اور سوچا۔ شاید اصل وہیں کہیں ہے۔
مگر جب وہ آگے بڑھی تو اُداسی اُس کے اَندر اُتر گئی۔
’’یہ جو اُداسی ہوتی ہے نا!۔ یہ گرد کی طرح ہوتی ہے۔ نہ جھاڑو تو تہ در تہ جمتی چلی جاتی ہے۔
یا پھر اُن سوئیوں کی طرح‘ جن میں سارا بدن بیندھا ہوتاہے‘ یو ں کہ بھیگی شام کو سوئیاں چبھوئی گئی ہوں تو رات پڑجاتی ہے سوئیاں نکال لی جائیں تو انگلیاں لہولہان ہو جاتی ہیں اورنہ نکالی جائیں تو سارا بدن سن ہو جاتا ہے۔‘‘
اس نے پوروں سے اُداسی کی ایک ایک سوئی کو ٹٹولا محض ٹٹولنے ہی سے اُس کی پوریں زخمی ہوگئیں۔
اُس نے سوئیاں بندھے بدن کو سہلایا‘ خلیہ خلیہ سن ہور ہا تھا
اُس نے ہمت کر کے ایک ایک سوئی نکال پھینکی۔
اور زخمی پوروں سے گرتے قطروں میں اپنے ہونٹوں کے عکس کو تلاش کیا۔
ابھی تک رَس بھرے تھے۔
قوسوں کو دیکھا۔ ندرت تھی
بدن ٹٹولا۔ مدھ بھرا تھا۔
بازؤوں کو جانچا۔ وارفتگی تھی۔
جب تک رس رہا ندرت رہی مدھ رہا وارفتگی رہی
وہ‘ جو بھی آتا سمٹاتی رہی اور آگے ہی آگے بڑھتی رہی۔
آگے۔ آگے۔ مزید آگے
مگر اِس کا اَنت کیا ہے؟۔
اُس کے اندر ٹوٹے حوصلے کی صدا تھی
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’گویا۔ یہ جو انت ہوتا ہے نا!۔ یہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ توفقط سراب ہے‘ دھوکا ہے‘‘
مگر یہ جو چلنے والے ہوتے ہیں‘ رُکتے کیوں نہیں؟
’’رُکیں کیسے۔ کہ ہر اَنت کا سراآغاز سے جڑا ہوتا ہے۔
یوں اَنت تو آغاز ہی کا دوسرا نام ہوا‘ نا!۔‘‘
اور وہ جو اَنت چاہتی تھی اسے پتہ ہی نہ چل رہا تھا کہ شروعات کہاں تھیں اور اَنت کہاں
اَنت اور آغازگڈمڈ ہو رہے تھے
اور وہ اپنے ہی محور پر گھومتی جا رہی تھی۔
’’یہ جو اپنے ہی محور پر گھومنا ہوتا ہے نا!۔ اِس سے چلنے اور ساکن ہونے کا فرق مٹ جاتا ہے۔‘‘
اور وہ جو اپنے ہی محور پرچل رہی تھی۔
یاگھوم رہی تھی۔
یا پھر جو ساکت تھی۔
اور اگر وہ ساکت تھی تو دوسرے چل رہے تھے
وہ بھی چل نہ رہے تھے‘ گھوم رہے تھے
اور جو گھوم رہے تھے‘ اُسے بھی گھما رہے تھے۔
اور جو گھما رہے تھے‘ اُس کا ہاتھ تھامتے تھے۔
جب ہاتھ تھام چکتے تھے تو قدم اُس کے اُوپر دَھرتے تھے۔
اور جب وہ ہمت کر کے ایک سے ہاتھ چھڑا لیتی تھی تو کوئی دوسرا تھام لیتا تھا
پھر تیسرا۔وہ سب ایک ایک کر کے بدلتے رہے
ایک جیسے چہرے
ایک جیسی سر گوشیاں
ایک جیسی آوازیں
ایک جیسے بدن۔
ایک جیسی سختی۔
ایک جیسی نرماہٹ۔
اورپھر۔یہاں وہاں۔ پانی ہی پانی۔
صاف‘ شفاف‘ موتیوں کی طرح چمکتا‘ پھسلتا
یا پھر بدبو دار‘ گندا‘ تعفن پھیلاتا‘ اچھلتا‘ کودتا۔
اور ان پانیوں کے بیچ پچھتاوے۔
اور ان پچھتاوں کے بیچ چہروں کا طلوع و غروب
تو کیا زیست کی طویل شاہ راہ کا سفر ایسا ہی ہے؟
اور یہ زیست کیسی ہے جو کچلتی ہی جا رہی ہے؟
اس نے کچل دینے والی زِیست کو دِیکھا۔
او ر جانا؛
’’زیست اور کچھ بھی نہیں ‘بس لعنت ہی لعنت ہے۔‘‘