جنازے
وہ ایک آفت زدہ بستی تھی۔ وہاں طلو ع آفتا ب سے لیکر غروب آفتاب تک جنازے اٹھتے رہتے تھے۔ اس بستی میں موت کا رقص کئی برسوں سے جاری تھا ۔ کبھی بچے اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے اپنے بزرگوں کی لاش پر مٹی ڈالتے اور کبھی بزرگ اپنے ناتواں کندھوں پر اپنے جوان بچوں کا جنازہ اٹھاتے رہتے ۔ ہر ایک اپنی مستعارزندگی کا فکر مند تھا ۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کب ، کہاں اور کیسے موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ ہر گلی سنسان اور ہر کوچہ ویران دکھائی دیتا، صرف قبر ستان آباد ہورہے تھے۔ وحشی گِدھ ہر وقت بستی کے اوپر منڈلاتے رہتے تھے ۔ ہر گھر سے خوف وہراس کی گھنٹیاں بجتی رہتی تھیں، ہر ذی حس سوچنے سے قاصر تھا کہ کس طرح ان وحشی خونحوار گِدھوں کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے؟ اور کب اس بستی کے چمنستانوں کو خوشحالی کی خوشبودار ہوائیں نئی رونق سے نوازیں گی؟ کب ہمیں اس ظالم گھٹن سے آزادی ملے گی ؟ بستی کا ہر فرد زندہ لاش نظر آتا تھا اور ذہنی تناؤ اورہارٹ اٹیک کا ماحول اس بستی کے انسانوں کا مقدربن چکا تھا۔ ان کے دلوں سے صرف بدنصیبی کی آہیں نکلتی رہتی تھیں اور ان کی آنکھیں رو رو کے پتھر ہوچکی تھیں۔ ٹوٹتے دلوں کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔
بچے جب اپنے بزرگوں سے اس سانحہ کی تاریخ کے بارے میں پوچھتے تھے اور ان کی بستی میں ان وحشی گِدھوں کی آمد کا سوال کرتے تھے تو افتاد زدہ بستی کے غم زدہ بزرگ یہ سوچ کر بچوں کے سوال کو ٹال دیتے تھے کہ اگر انہوں نے انہیں ان مردہ خور گدھوں کی اصلیت سے آگاہ کیا تو نہ جانے اس نسل کا کیا حشر ہوگا جن سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن بستی کی ویرانی نئی نسل کے ذہنوں کو روز بروز کوستی رہتی اور جوں جوں ان کی سوچ بڑھنے لگی ان کو خودبخود اس ویرانی کا سبب معلوم ہونے لگا۔ وہ اپنے گلستانوں میں ویرانی کے بدلے خوشحالی لانے کے لئے تڑپنے لگے۔ ان کی تڑپ بغاوت میں بدل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بستی کی یہ نئی نسل خوشحالی لانے کی تاریخ کا حصّہ بننے لگی۔
موسم بدلتے رہے ۔ سوچیں بدلنے لگیں۔ ہر موسم اپنے ساتھ نئے نئے گِدھ ساتھ لاتا گیا لیکن خوشحالی کی متمنی اس نسل کا جوش اور ابلنے لگا۔ ان کی زبان پر صرف ایک لفظ تھا خوشحالی۔۔۔ خوشحالی۔۔۔ ! بستی کے بزرگ ابھی اپنے نوجوان نسل کی خون ٹپکتی لاشوں کو بھول نہیں پائے تھے کہ نئی نسل نے بھی وہی راہ اختیار کرلی۔ یہ نسل بڑی ہوشمند ی کے ساتھ خوشحالی کے لئے جدوجہد کرنے لگی۔ وہ اپنے اسکول بھول گئی ۔ اپنی خوشیاں چھوڑ بیٹھی ۔ وہ پڑھنے کے بدلے اپنے مقصد سے پیار کر نے لگی اور ان کا مقصد تھا ان وحشی گِدھوں کو اپنیخوبصورت گلستان سے نکال دینا۔ انہوں نے خوشی کے کھیلونوں کے بدلے غم کے پتھر ہاتھوں میں اٹھائے اور ان اجنبی وحشی گِدھوں کو نشانہ بناتے گئے۔ پتھروں نے وحشی گِدھوں میں ہلچل مچادی ۔ ان کو نئی نسل کا مقصد سمجھ میں آگیا۔ ان کو یہ ناگوار گزرا کہ وہ ان شاہین صفت بچوں کے گلستان پر ایک عرصہ سے راج کرتے آئے ہیں اور اب یہ ہمیں یہاں سے بھگانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ایسا ہم ہونے نہیں دینگے ۔ ان وحشی گدھوں نے ان شاہین صفت بچوں پر جھپٹنا شروع کردیا اور اپنے خونحوار نوکیلی چونچوں سے ان کے دل و دماغ کو نوچنے لگے ۔ نئی نسل بغیر ہمت ہار ے جان کی بازی لگا کر ان وحشیوں پر پتھر وں سے وار کر تے گئے۔ بستی کی مٹی سرخ ہوتی گئی ۔ گلی گلی سے خون کی ندیاں بہتی رہیں ۔خونحوار گِدھ بستی کے ہر فرد کو اپنے زہریلے پنجوں سے چیرپھاڑ کر رکھ دیتے ۔
ہر گھر سے ماتم کی صدائیں آرہی تھیں۔ بہار بھی خزاں کی یاد دلارہی تھی۔ بزرگ ناچاہتے ہوئے بھی اپنی نئی نسل کو گھروں میں قید کرکے رکھتے تھے۔ لیکن عارضی خاموشی جلد ہی ٹوٹ جاتی اور نئی نسل موقع ملتے ہی وحشی گِدھوں پر ٹوٹ پڑتی ۔ ہر طرف موت کی چیخیں سنائی دیتیں ۔ پلٹ جھپٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہا، بڑھتا رہا ۔بستی والوں کی پرنم آنکھیں آسمان کے چمکتے ستاروں کے فیصلے کی منتظر تھیں لیکن آسمان کے چمکتے ستارے اپنے مقصد اور مفاد کے مطابق اپنے فیصلے بدلتے رہتے ۔ ہر ستارہ نئی نئی ساز ش کا جال بنتا گیا۔ بستی کے گلستان قبرستان میں تبدیل ہوتے گئے ۔ اور گلشن کے پھولوں میں خون کی سرخی نمودار ہوتی گئی۔ نوجوان نسل کی خوبصورت لاشوں کو مٹی کے حوالے کرتے ہوئے بزرگوں کے ہاتھ کپکپاتے تھے۔ خوف وہراس کی بدنصیب ہواؤں سے ان کے کمزور جسم لڑ کھڑا رہے تھے ۔ اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بستی کے سبھی لوگ اپنیمستقبل کو سنوارنے کے لئے اپنے اپنے جنازے میں گم تھے۔