جہل

کسے کیا کہوں
مرے لفظ ترسیل سے منحرف ہیں
مری سوچ اپنی ہی پیچاک پہ گھومتی جا رہی ہے
سنہرے روپہلے ہرے کاسنی
کوزہ در کوزہ
رنگوں میں لپٹے ہوئے
میرے جذبات
جن کو پروسوں تو سوچوں
بہت تلخ ہے ذائقہ
کون سمجھے محبت کی جادوگری
کون پرکھے عداوت کی پاکیزگی
کس کو سمجھاؤں ہجرت کی آوارگی
کس کو دکھلاؤں غربت کی آسودگی
دل میں رکھ لوں تو زہراب بن جائیں گے
خوش کلامی کا کیسے بھرم رکھ سکوں
آفرینی کہیں ہے تو معنی کہیں
ایسا بکھراؤ پہلے نہیں تھا کبھی
سچ کو غازے و غمزے سے کیا عار تھا
اب ملمع کی کوشش میں دل ہے کہیں
ذہن ہے اور کہیں
لفظ تاریک تر
سوچ بھی گنجلک
خود پہ اپنا یقیں لڑکھڑا سا گیا
بازگشت صدا میرا پیچھا نہ کر
مجھ کو میرے تیقن نے جاہل کیا