جہاں جہاں ہے سحر کا عالم وہیں وہیں روشنی نہیں ہے
جہاں جہاں ہے سحر کا عالم وہیں وہیں روشنی نہیں ہے
ہزار شمعیں ہوئیں ہیں روشن مگر کہیں روشنی نہیں ہے
نہ مجھ کو بہکاؤ ان اجالوں کی مہر افروز رنگتوں سے
فریب ہے یہ کسی کرن کا نہیں نہیں روشنی نہیں ہے
ہمارا ذوق نگاہ اب تک ہے گمرہی کی نقاب اوڑھے
عجب تماشا ہے تیرے جلووں میں مہ جبیں روشنی نہیں ہے
جہاں پہ سورج چمک رہا ہے وہیں پہ ظلمت برس رہی ہے
میں کیوں نہ ظلمت سے پیار کر لوں کہ دل نشیں روشنی نہیں ہے
نئے اجالے اداس روحیں نئے سویرے بجھے ہوئے ہیں
یہ ایک دھوکا ہے روشنی کا دل حزیں روشنی نہیں ہے
چراغ خفتہ چراغ روشن سے جگمگاتا رہا ہمیشہ
مقام ہستی کے ان اندھیروں پہ خشمگیں روشنی نہیں ہے
بڑھے ہیں منزل کی سمت ہم بھی شعاع بختؔ جمیل لے کر
ہمیں تردد نہیں ہے کوئی اگر کہیں روشنی نہیں ہے