جہان ریگ ترا آب دیکھنے کے لیے

جہان ریگ ترا آب دیکھنے کے لیے
ملی ہے آنکھ مجھے خواب دیکھنے کے لیے


گہن لگا دے اگر زلف سے تو چہرے پر
میں آنکھ پھوڑ لوں مہتاب دیکھنے کے لیے


یہ کیا ستم ہے کہ آتا ہوں ایک صحرا سے
ذرا سی گھاس کو شاداب دیکھنے کے لیے


اٹھے تھے شوق سے اپنا ہی چین کھو بیٹھے
وہ میرے حال کو بیتاب دیکھنے کے لیے


لہو کیا ہے جو پانی تو اب فلاح مری
چلی ہے جھوم کے تالاب دیکھنے کے لیے


ذرا سا اور ٹھہر جا تو پر لگے گا ترا
تو ہم بھی آئیں گے سرخاب دیکھنے کے لیے


پکڑ میں آ گیا احساس چھپ کے آیا تھا
غموں کی جھیل میں سیلاب دیکھنے کے لیے


تجھے پرکھ ہی نہیں ہے میں ایک اخترؔ ہوں
تو پھر ترس تو مرا خواب دیکھنے کے لیے