جب طلسم قفل ابجد کھل گیا
جب طلسم قفل ابجد کھل گیا
حاصل گفتار سرمد کھل گیا
ٹوٹ کر آئی ہے اس گل پر بہار
جسم لو دینے لگا قد کھل گیا
صبح لائی ہے رہائی کی نوید
آسماں کھلتے ہی گنبد کھل گیا
کارزار عشق میں آنے کے بعد
رنگ میراث اب و جد کھل گیا
خود بخود آیا ہے لب پر اس کا نام
روح پر عنوان ارشد کھل گیا
ریگ صحرا لے اڑی باد شمال
دشت گم ہوتے ہی معبد کھل گیا
آ گئی ساجدؔ زباں پر دل کی بات
آج آخر ان کا مقصد کھل گیا