جب چلی سرد ہوا
موسم سرما کی یہ ویران اور مغموم شام
کہر کی چادر میں لپٹی ہے سسکتی کائنات
گیت خوابوں کی طرح لرزاں سلگتی ہے حیات
برف میں ڈوبی ہوا کی سیٹیاں
چیل کے جنگل کی میٹھی لوریاں
ڈگمگاتے ہیں پریشاں مضمحل لمحوں کے گام
چار سو آواز دے کر پوچھتا پھرتا ہوں میں
ان ہواؤں کی جبین ناز پر
کیا کہیں لکھا ہوا ہے میرا نام
اڑ رہے ہیں راستوں پر زرد پتے جو کبھی
چند لمحوں کو بنے تھے زینت شاخ شجر
جانے یہ کب تک رہیں گے یوں ہوا کے دوش پر
کو بہ کو قریہ بہ قریہ یم بہ یم محو سفر
دکھ کے لمبے سلسلے اور چند لمحوں کی خوشی
ہائے اپنی زندگی