جب بھی اس کا خیال کرتا ہوں

جب بھی اس کا خیال کرتا ہوں
اپنی غزلوں میں رنگ بھرتا ہوں


شہر سے اس کے جب گزرتا ہوں
خود بخود ٹوٹتا بکھرتا ہوں


دیکھتا ہوں بلندیوں کی طرف
سیڑھیاں جب کبھی اترتا ہوں


آپ ڈرتے ہیں اپنے دشمن سے
اور میں دوستوں سے ڈرتا ہوں


ظالموں سے تجھے کرم کی امید
میں تری سادگی پہ مرتا ہوں


میں مسافر ہوں دھوپ کا ارشدؔ
میں کہاں چھاؤں میں ٹھہرتا ہوں