جب بھی نظم میکدہ بدلا گیا

جب بھی نظم میکدہ بدلا گیا
اک نہ اک جام حسیں توڑا گیا


جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا
ناخدا کو بھی خدا یاد آ گیا


میں نے چھیڑا قصۂ جور فلک
جانے کیوں ان کو پسینہ آ گیا


دیکھ کر ان کی جفاؤں کا خلوص
میں وفا کے نام پر شرما گیا


آپ اب آئے آنسو پونچھنے
جب مرے دامن پہ دھبہ آ گیا