تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ

تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ
اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ


ہر مرتبہ آتا ہے مہ نو کی طرح تو
اس بار ذرا میری شب غم کی طرح آ


حل کرنے ہیں مجھ کو کئی پیچیدہ مسائل
اے جان وفا گیسوئے پر خم کی طرح آ


زخموں کو گوارا نہیں یک رنگئ حالات
نشتر کی طرح آ کبھی مرہم کی طرح آ


نزدیکی و دوری کی کشاکش کو مٹا دے
اس جنگ میں تو صلح کے پرچم کی طرح آ


مانا کہ مرا گھر تری جنت تو نہیں ہے
دنیا میں مری لغزش آدم کی طرح آ


تو کچھ تو مرے ضبط محبت کا صلہ دے
ہنگام فنا دیدۂ پر نم کی طرح آ