جام کھنکے تو سنبھالا نہ گیا دل تم سے
جام کھنکے تو سنبھالا نہ گیا دل تم سے
ہے ابھی دور بہت ضبط کی منزل تم سے
ہم تو دریا میں بہت دور نکل آئے ہیں
لوٹ جاؤ ابھی نزدیک ہے ساحل تم سے
جستجو سرحد ادراک سے آگے نہ بڑھی
دو قدم طے نہ ہوا مرحلۂ دل تم سے
خلوت شوق کے در بند کئے لیتا ہوں
اب شکایت نہ کرے گی کوئی محفل تم سے
سخت جانی مری آسودۂ خنجر تو نہ تھی
کیوں نکالا گیا حوصلۂ دل تم سے
تم تو نغموں کی فصیلوں پہ بہت نازاں تھے
کیوں دبایا نہ گیا شور سلاسل تم سے
دھڑکنوں کو نظر انداز کئے جاتے ہو
پھر نہ کہنا کہ مخاطب نہ ہوا دل تم سے