عشق کو آنکھ میں جلتے دیکھا

عشق کو آنکھ میں جلتے دیکھا
پھول کو آگ میں کھلتے دیکھا


عشق کے راز نہ پوچھو صاحب
عشق کو دار پہ چڑھتے دیکھا


عشق کے دام بھی لگ جاتے ہیں
مصر میں اس کو بکتے دیکھا


عشق ہے واجب اس کو ہم نے
جسم اور جاں میں اترتے دیکھا


اس کو ہوس کا نام نہ دینا
لوح پہ اس کو لکھتے دیکھا


عرش بھی حیرت سے تکتا تھا
دشت میں اس کو پلتے دیکھا


عشق انوکھا منظر جس میں
راز کو خواب میں ڈھلتے دیکھا


ہجر کا زخم تو زخم ہے ایسا
بخیہ گروں سے بھی کھلتے دیکھا


عشق وہ باغ ہے جس کو ہم نے
ہجر کی رت میں مہکتے دیکھا


غم کیا ہجر اور وصال کا اس کو
عشق میں جس کو بھٹکتے دیکھا