عشق کی چنگاریوں کو پھر ہوا دینے لگے
عشق کی چنگاریوں کو پھر ہوا دینے لگے
میرے پاس آ کر وہ دشمن کو دعا دینے لگے
میکدے کا مے کدہ خاموش تھا میرے بغیر
میں ہوا وارد تو پیمانے صدا دینے لگے
ختم کرنا ہی پڑیں گی شام غم کی الجھنیں
اب وہ اپنے گیسوؤں کا واسطہ دینے لگے
اعتراف اوج کا جذبہ نہیں احباب میں
ہر ترقی پر ترقی کی دعا دینے لگے
دوستوں کی کج ادائی میں بھی لذت ہے شکیلؔ
دوست وہ ہے دوست بن کر جو دغا دینے لگے