اس سے پہلے کہ کوئی اور ہٹا دے مجھ کو (ردیف .. ے)

اس سے پہلے کہ کوئی اور ہٹا دے مجھ کو
اپنے پہلو سے کہیں دور بٹھا دے مجھ کو


میں سخن فہم کسی وصل کا محتاج نہیں
چاندنی رات ہے اک شعر سنا دے مجھ کو


خودکشی کرنے کے موسم نہیں آتے ہر روز
زندگی اب کوئی رستہ نہ دکھا دے مجھ کو


ایک یہ زخم ہی کافی ہے مرے جینے کو
چارہ گر ٹھیک نہ ہونے کی دوا دے مجھ کو


یوں تو سورج ہوں مگر فکر لگی رہتی ہے
وہ چراغوں کے بھرم میں نہ بجھا دے مجھ کو


تجھ کو معلوم نہیں عشق کسے کہتے ہیں
اپنے سینہ پہ نہیں دل میں جگہ دے مجھ کو


ہر نئے شخص پہ کھل جانے کی عادت موہنؔ
دینے والے سے کہو تھوڑی انا دے مجھ کے