اس کو کچھ تو ملتا ہے مجھ پہ ظلم ڈھانے سے
اس کو کچھ تو ملتا ہے مجھ پہ ظلم ڈھانے سے
بعض وہ نہ آئے گا میرا گھر جلانے سے
گا رہی ہیں دیواریں رقص میں ہے آنگن بھی
کتنی رونقیں آئیں تیرے لوٹ آنے سے
آ کہ تیرے ماتھے پر اب اسے سجا دوں میں
چاند لے کے آیا ہوں رات کے خزانے سے
وہ بھی ان دنوں یارو اپنی چال میں گم ہے
ہم بھی کچھ نہیں کہتے آج کل زمانے سے
ہم نے اپنی آنکھوں میں خواب کچھ سجائے ہیں
اپنا بھی تعلق ہے زیست کے گھرانے سے
وہ ہے بے نظر پاشیؔ اس کو کیا خبر پاشیؔ
کتنے دل سلگتے ہیں اک دیا بجھانے سے