اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے

اس بت کے ہر فریب پہ قربان سے رہے
اک عمر اپنے مٹنے کے سامان سے رہے


اس جاں نواز کوچے میں ہم بھی رہے مگر
بے دل کبھی رہے کبھی بے جان سے رہے


رندان مے کدہ ہیں کہ تنگ آ کے اٹھ گئے
یاران مے کدہ ہیں کہ انجان سے رہے


اس میں چمن کا رنگ نہ اس میں چمن کا روپ
ہم بوئے گل سے آج پریشان سے رہے


لب سی لیے جو خندۂ یاراں کے خوف سے
برسوں ہمارے سینے میں طوفان سے رہے


یہ جان ایسی چیز ہے کیا پھر بھی ہم نشیں
ہم ان پہ جان دے کے پشیمان سے رہے


گلشن میں جوش گل تو بگولہ ہیں دشت میں
اہل جنوں جہاں بھی رہے آن سے رہے