ان کتابوں میں بند اجالے ہیں

آدمی کا وقار علم سے ہے
زندگی کی بہار علم سے ہے
علم سے بہرہ ور جو ہوتے ہیں
نیکیاں وہ زمیں میں بوتے ہیں
علم ہے روشنی چراغ ہے علم
دل کی دھڑکن ہے اور دماغ ہے علم
ہیں جو علم کتاب سے محروم
ان کو دنیا میں کچھ نہیں معلوم
ان کا جینا بھی ہے کوئی جینا
آنکھ تو ہے مگر ہیں نا بینا
جہل ظلمت ہے روشنی ہے علم
موت اندھیرا ہے زندگی ہے علم
جیسے خوشبو ہر اک گلاب میں ہے
علم بھی بند ہر کتاب میں ہے
یہ کتاب ایسی ایک کھیتی ہے
کچھ نہ کچھ آدمی کو دیتی ہے
علم سے پھول دل کا کھلتا ہے
آگہی کا سراغ ملتا ہے
جانتے ہیں جو پڑھنے والے ہیں
ان کتابوں میں بند اجالے ہیں
دنیا بھر کی زبانیں بولتیں ہیں
ذہن کے در کتاب کھولتی ہیں
جو کتابوں سے دور رہتے ہیں
عمر بھر بے شعور رہتے ہیں
سچ تو یہ ہے کتاب ہے بھائی
سب سے بہتر رفیق تنہائی
میرا اعجازؔ مشورہ ہے یہی
تم بھی جا کر پڑھو کتاب کوئی