اک تم کہ ہو بے خبر سدا کے
اک تم کہ ہو بے خبر سدا کے
موسم ہے کہ ہاتھ مل رہا ہے
ظاہر میں صبا خرام خوشبو
باطن میں نفاق پل رہا ہے
اے لذت ہجر یاد رکھنا
یہ لمحۂ وصل کھل رہا ہے
آئینے میں عکس ڈھل رہا ہے
پانی میں چراغ جل رہا ہے
آنکھوں میں غبار منزلوں کا
قدموں میں سراب چل رہا ہے
جیسے کوئی یاد آ رہا ہو
آنکھوں میں نشہ پگھل رہا ہے
ہم اس کے مزاج آشنا ہیں
جو بات کا رخ بدل رہا ہے