اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا

اک پل کہیں رکے تھے سفر یاد آ گیا
پھولوں کو ہنستا دیکھ کے گھر یاد آ گیا


تتلی کے ساتھ آئی تری یاد بھی ہمیں
رکھا ہوا کتاب میں پر یاد آ گیا


بیٹھے تھے جس کی چھاؤں میں ہم دونوں مدتوں
کیا جانے آج کیوں وہ شجر یاد آ گیا


سرحد سے کوئی آیا ہے پھر خون مانگنے
اک ماں کو اپنا لخت جگر یاد آ گیا


پھینکا تھا میں نے طنز کا پتھر کسی کی سمت
غالبؔ کی طرح اپنا ہی سر یاد آ گیا