ابن آدم

کوئی جب پوچھتا ہے یہ
شیعہ ہو تم یا سنی ہو
وہابی ہو کہ دیوبندی
بتاؤ کون سے فرقے سے نسبت ہے
نہ جانے کیوں مجھے اک پل
سجھائی کچھ نہیں دیتا
میں گہری سوچ میں تب ڈوب جاتا ہوں
مرے اندر سے اک آواز آتی ہے
سنا ہے تم نے بچپن سے
کہ تم تو ابن آدم ہو
تو پھر سچ سچ بتاؤ نا
مسلمانوں کے فرقے کیا
کہ ہندو سکھ عیسائی
پارسی تک بھی
جہاں میں جتنے انساں ہیں
مرے بابا کے بیٹے ہیں
یہ مانا شکل و صورت میں
ذرا سے مختلف ہوں گے
رگوں میں دوڑتا ہے جو
لہو تو ایک جیسا ہے
سبھی اولاد آدم سے
کہ جس میں آدمیت ہو
مری تو اس سے نسبت ہے
اسی سے خون کا رشتہ
یہی سچ ہے
کہ جب میں ابن آدم ہوں
مرا مذہب وہی ہے جو
مرے بابا کا مذہب ہے