حسن و عشق کا سنگم دیر تک نہیں رہتا

حسن و عشق کا سنگم دیر تک نہیں رہتا
کوئی بھی حسیں موسم دیر تک نہیں رہتا


لوٹ جاؤ رستے سے تم نئے مسافر ہو
پیار کا سفر ہمدم دیر تک نہیں رہتا


اونچے اونچے محلوں کی داستاں یہ کہتی ہے
قہقہوں کا یہ عالم دیر تک نہیں رہتا


دل کسی کا ٹوٹے یا گھر کسی کا جل جائے
بے وفا کے دل کو غم دیر تک نہیں رہتا


ہو سکے تو چاہت کی چوٹ سے بچے رہنا
ورنہ زخم پر مرہم دیر تک نہیں رہتا


کیوں غرور کرتے ہو جا کے تم بلندی پر
شہرتوں کا یہ پرچم دیر تک نہیں رہتا


کون جانے کب کس پر زندگی ٹھہر جائے
کوئی رستم اعظم دیر تک نہیں رہتا