ہم خاک نشینوں کو راحت کا اجالا دے

ہم خاک نشینوں کو راحت کا اجالا دے
کب ہم نے کہا تجھ سے سونے کا نوالا دے


رہنے کو حویلی ہے شہرت بھی ملی لیکن
کردار بھی کچھ تجھ کو اللہ تعالی دے


اب ایسی محبت سے دل کون لگاتا ہے
جو زخم جگر میں دے اور پاؤں میں چھالا دے


کیا اٹھ گئی دنیا سے ہر رسم وفا یا رب
کہتا ہے یہ دیوانہ اک چاہنے والا دے


اے یار مری چاہت اور ظرف کو کیا جانے
پی لوں ترے ہاتھوں سے گر زہر کا پیالا دے


اپنا ہو کہ دشمن ہو یہ تاجؔ نہ دیکھا کر
ہر شخص کو خوش ہو کر اخلاق نرالا دے