حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں

حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیں
شوخیاں لے کر جوانی آ گئیں


سر میں سودا دل میں درد آنکھوں میں اشک
بستیاں ہم کو بسانی آ گئیں


جو بگڑ جاتا تھا باتوں پر کبھی
اب اسے باتیں بنانی آ گئیں


دل میں لاکھوں داغ روشن ہو گئے
عشق کو شمعیں جلانی آ گئیں


برق و باراں کے جلو میں بدلیاں
ساتھ لے کر آگ پانی آ گئیں


اے دل راحت طلب ہشیار باش
ساعتیں اب امتحانی آ گئیں


دل لگا کر پھنس گئے زحمت میں ہم
تھیں بلائیں جتنی آنی آ گئیں


مسکرا دینا قیامت ہو گیا
بجلیاں تم کو گرانی آ گئیں


ڈر رہے تھے جن سے ارباب جہاں
وہ بلائیں آسمانی آ گئیں


نوحؔ وہ کہتے ہیں پھر طوفان اٹھے
قوتیں اب آزمانی آ گئیں