حجرۂ ذات سے باہر تو نکل کر دیکھو

حجرۂ ذات سے باہر تو نکل کر دیکھو
تم کسی دوسرے پیکر میں بھی ڈھل کر دیکھو


کیا عجب تم کو ہی یہ ہم سفری راس آ جائے
دو قدم ہی سہی تم ساتھ تو چل کر دیکھو


ہاں یہ دستار فضیلت بھی قبائے زر بھی
خود کو دیکھو تو یہ پوشاک بدل کر دیکھو


موسم ہجر کوئی رت ہے نہ کچھ آب و ہوا
اک تقاضا ہے کہ پھر گھر سے نکل کر دیکھو


مات ہو جائے مگر حوصلۂ دل کے لیے
آخری چال جو باقی ہے وہ چل کر دیکھو