ہوا ہے مجھ پہ کچھ ایسا اثر اس کے تبسم سے
ہوا ہے مجھ پہ کچھ ایسا اثر اس کے تبسم سے
ہوا گلزار ہے میرا سفر اس کے تبسم سے
وہ ہلکی مسکراہٹ اور کنارے پہ وہ کالا تل
نہیں ہٹتی زمانہ کی نظر اس کے تبسم سے
یقیں ہے مجھ کو اس کا کوئی بھی ثانی نہیں ہوگا
ہوا نایاب ہے وہ اس قدر اس کے تبسم سے
بچائے ڈوبنے سے اب کوئی خود کو بھلا کیسے
بنے جو گال پر قاتل بھنور اس کے تبسم سے
کبھی پوچھیں اگر اہل جہاں جو اس کے بارے میں
کہوں گا میں کہ ہوتی ہے سحر اس کے تبسم سے