ہونٹوں پہ اگرچہ مرے مسکان سجی ہے

ہونٹوں پہ اگرچہ مرے مسکان سجی ہے
اب بھی مری پلکوں پہ تو ہلکی سی نمی ہے


آ کر کوئی بیٹھا ہے خیالوں میں جو اس دم
آنکھوں کی یہ برسات ذرا دیر رکی ہے


میں خود ہوں کہیں اور دل غم دیدہ کہیں اور
جذبات میں احساس میں اک برف جمی ہے


خوابوں کے دریچے سے جو جھانکا ہے کسی نے
دل نے کہیں سینے میں کوئی آہ بھری ہے


تصویر غم و درد بنی جاتی ہوں اب تو
کیسی مرے مالک مری تقدیر لکھی ہے


دل درد جدائی سے تڑپتا ہے ہر اک پل
ہوں بھیڑ میں لوگوں کے مگر تیری کمی ہے


دل جلتا ہے کیوں کر نہ کروں آہ اور زاری
طوفان ہے سینے میں اک ہلچل سی مچی ہے


لگتا ہے کہ جلتا ہے ان آنکھوں میں کوئی خواب
اٹھتا ہے دھواں جیسے کہیں آگ لگی ہے


اک پل کی جدائی مجھے منظور نہیں اب
ہمت نہیں جینے کی بڑی سخت گھڑی ہے


گلیوں میں کھڑے ہو کے تری راہ تکوں میں
زنجیر ترے ہجر کی پیروں میں پڑی ہے


باقی نہیں جینے کی تمنا مرے دل میں
آ دیکھ لے رعناؔ تری کس غم میں گھلی ہے