عجب سی اک مصیبت ہو گئی ہے

عجب سی اک مصیبت ہو گئی ہے
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے


قدم رکھا ہے جب سے عشق نگری
ہمیں رونے کی عادت ہو گئی ہے


نہیں سنتا ہے یہ دل اب ہماری
اسے اب تیری عادت ہو گئی ہے


رہائی کب ملے کس کو پتا ہے
سو اب زنداں سے رغبت ہو گئی ہے


نہیں ہے آپ تک اپنی رسائی
پہنچ سے دور قیمت ہو گئی ہے


یہاں اب جان پر میرے بنی ہے
تمہاری بس شرارت ہو گئی ہے


سنو گر سن سکو اے جان چنداؔ
ہمیں دنیا سے نفرت ہو گئی ہے