ہولی اور ہندوستان
اک طرف راحت کا اور فرحت کا کال
اک طرف ہولی میں اڑتا ہے گلال
اک طرف یاروں کی عشرت کوشیاں
اک طرف ہم اور حال پر ملال
اک طرف دور شراب آتشیں
اک طرف تلچھٹ کا ملنا بھی محال
دیکھتے ہیں تجھ کو جب اٹھتی ہے ہوک
آہ اے ہندوستاں اے خستہ حال
رحم کے قابل یہ بربادی تری
دید کے قابل یہ تیرا ہے زوال
کس قدر خوں ریز ہے کتنا قبیح
تیری مسجد اور مندر کا سوال
اف ترے بیٹوں کی رزم آرائیاں
آہ ان کے باہمی جنگ و جدال
اپنے فرزندوں کے یہ اطوار دیکھ
دیکھ یہ لعنت کے قابل چال ڈھال
کس قدر ذلت کے دل دادہ ہیں یہ
بے کمالی میں ہیں کتنے با کمال
سینۂ تہذیب پر ہے پنجہ زن
دین کے جھگڑوں میں ان کا اشتعال
دامن اخلاق پر دھبا ہے ایک
ان کی وحشت خیزیوں کا اتصال