ہو گیا منزل نشیں جو راہرو دیوانہ تھا
ہو گیا منزل نشیں جو راہرو دیوانہ تھا
انتخاب راہ میں ہی غم ابھی فرزانہ تھا
اے نگاہ برق یوں تو اور بھی تھے آشیاں
تیرا منظور نظر کیا میرا ہی کاشانہ تھا
مورد الزام کیوں ٹھہرے بھلا دست کرم
مانگنے والے ترا لہجہ ہی گستاخانہ تھا
قوم کا ہی غم تھا جو اقبالؔ نے شکوہ کیا
غور کیجے تو وہ شکوہ شکوۂ بے جا نہ تھا
درد ہی سے عظمت انساں بڑھی ورنہ سحرؔ
ایک مشت خاک تھا جب درد سے بیگانہ تھا