قصۂ خواب ہوں حاصل نہیں کوئی میرا
قصۂ خواب ہوں حاصل نہیں کوئی میرا
ایسا مقتول کہ قاتل نہیں کوئی میرا
ہے بپا مجھ میں عجب معرکۂ سود و زیاں
اس لڑائی میں مقابل نہیں کوئی میرا
بہتا جاتا ہوں میں گمنام جزیروں کی طرف
وہ سمندر ہوں کہ ساحل نہیں کوئی میرا
ہے عجب بات کہ دشمن کا طرف دار بھی ہے
ایسا لگتا ہے کہ یہ دل نہیں کوئی میرا
روز دیتا ہے مرے سامنے اوروں کی مثال
اور کہتا ہے مماثل نہیں کوئی میرا