ہوا کا جال بھلا ٹوٹ کر بکھرتا کیا

ہوا کا جال بھلا ٹوٹ کر بکھرتا کیا
مری صدا کا پرندہ اڑان بھرتا کیا


نہ دست و پا ہی سلامت رہے نہ سر باقی
اب اس سے بڑھ کے کوئی سانحہ گزرتا کیا


کہ اس نے تار تخاطب کو ناگہاں چھیڑا
الجھ کے رہ گئی آواز سر ابھرتا کیا


بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کا سخت جاں منظر
بچھڑتے وقت میں آنکھوں میں قید کرتا کیا


لرز رہی تھی اندھیرے کی سیڑھیاں ساری
دیار شب میں اجالا کوئی اترتا کیا


کنار آب کھڑا سوچتا رہا شہزادؔ
جو نقش ڈوب چکا تھا وہ پھر ابھرتا کیا