حسینئہ من

دھوپ کی تپش سے، سورج کی گرمی سے، اوزون کے شگاف سے، انسانوں کے رویو ّں سے، مخلوق کے سلوک سے برف پگھل پگھل کر نجانے کب سے اپنا سفر شروع کرتی ہے۔ کہاں کس سے جھولتی ہے، کہاں کس کو چومتی ہے، کہاں اس کا دم بے دم ہو جاتا ہے، اور کہاں کس کی بانہوں میں سوجاتی ہے۔ اور پھر نجانے وہ کب کس سفر کو، کس اور نکلتی ہے، پھر سے وہی آنکھ مچولی، کسی سے اٹکھیلیاں کرنا، کبھی کسی درز سے اپنا راستہ بنا لینا، کبھی کسی پتھرکو رستے سے ہٹا دینا، یوں حدّتوں کا طویل سفر مادوں میں بدل جاتا ہے۔
موتی بننے تک سیپ میں مدتوں محبت کے کرب ناک سفر ہوتے ہیں، تب کہیں کوئی سُچا موتی کسی کی سہاگ کے تحفے میں پرویا جاتا ہے، کسی کے گلے، کسی کی انگلی میں اپنے لمس کی گدگداہٹ بکھیرتا ہے۔
حدتوں سے آبشاریں ابل پڑتی ہیں، توہم نیا گرا فال، سے سوات فال تک کے حسین نظاروں کو جاتے ہیں۔ اس کی طاقت سے تو پہاڑوں، کہساروں کے سینے شق ہو جاتے ہیں۔ خاک مجال کہ اس کے سامنے چٹان بننے کی جرات کر سکے اور جو بنے وہ فرعون ہے، فرعون خدائی دعویدار۔۔۔
پتھر سے ذرا ادھر ہٹ کر اس کے قریب اس نے اس کے لمبے گھنگھریالے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹا اور اس کے گال پہ لاکر چھوڑ دیا۔
’’حسینہء من یہ زندگی ہے‘‘۔
حسینہء من نے بری ادا سے ایک انگڑائی لی، اپنی بڑی بڑی آنکھوں اور لمبی پلکوں کو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، جس کے چہرے پہ وصل کے کئے وحشت ناک لمحے حدت کے نام پہ جوانی میں ہی شکن بن گئے تھے۔ کئی حدتیں ابھر کر شدت میں بدل گئی تھیں۔ اس نے اس کا مرمریں ہاتھ تھاما، یورپی کلاسیکل رقص کی سی گولائی میں گھوم گئی۔ اس کے چاروں او ر اک خوشبو بکھر گئی، جو اسی ہی میں مسکرارہی تھی، جواس کو ہی تڑپا رہی تھی۔ اس نے تڑپ کر لمحہ بھر میں قریب کے درخت سے ٹیک لگالی۔
’’چمکتی کشادہ پیشانی، بھولی صورت پہ سجی صدیوں پرانی معصوم بادامی آنکھیں، جن میں صدیوں کی انگڑائیاں ٹھہر گئی تھیں۔ بھرے بھرے گالوں پہ اک دن کی بڑھی شیو، مرمریں ہونٹوں سے کچھ اوپر گال پہ جھولتا اک تل، لمبی گردن سے نیچے نکھرا نکھرا کشادہ سینہ، جس کو اس نے اک سیاہ کُرتی سے چھپا رکھا تھا، مگر حسن تو حسن ہوتا ہے، سات پردوں میں بھی چھلک وجھلک پڑتا ہے، ریڑھ کی ہڈی سے بغل گیر ہوتا پیٹ، اور اس کے نیچے شفاف زمین پہ کھلی کھمبی، جس کی حفاظت پہ دوسرو ٹانگیں معمور تھیں، گول مٹول چمکتے بازو، جن پہ بال کھلی رات کے ستاروں کی طرح مسکرا رہے تھے۔
وہ اپنے تمام تر حسین لباس کے باوجود اس کے چشم تصور میں نجانے کب سے فطرت کے لباس میں مسکرارہا تھا۔ جذبات دونوں اور اپنی خوشبو بکھیر رہے تھے۔ ضبط کی وقت بھی دونوںاور یقین و بے یقینی کی ڈولتی کشتی سے انا کی دیوار بنانے کی کوشش میں کامیاب نظر آتی تھی۔
حسینہء من نے آنکھیں کھولیں اس کی طرف دیکھا۔ غور سے دیکھا، سرتاپا دیکھ، مسوس سی ہو کر آنکھیں چرا لیں۔ آسمان کی اور دیکھ کر کہنے لگی، ’’فطرت کے دو رنگ ہیں، وہ پہاڑوں سے چشمے نکا ل دیتا ہے، لوگ دیوانہ وار اسکی اور دوڑ پڑتے ہیں، کبھی برف کی خود سپردگی اس کو پانی بنا دیتی ہے، پانی چشموں اور آبشاروں کی صورت پیاس بجھانے لگتا ہے، کبھی یہ نظاروں کی پیاس ہوتی ہے، کبھی یہ جانداروں کی پیاس ہوتی ہے، کبھی پیاس نہیں بھی ہوتی ، تو لپٹ کر دلدل میں بدل جاتا ہے، سیم کی شکل بیمار ہو جاتا ہے، اور بیمار کر دیتا ہے۔ مگر گرتایہ نیچے کی اور ہی ہے، غصے و ضبط میں طوفان بن کر اچھل پڑتا ہے، چنگاڑتا ہے تو خوف زدہ کر دیتا ہے۔
دوسرے رنگ میں بھیدی بن جاتا ہے۔ اپنے دل میں وسعت پیداکر لیتا ہے، خودمیں خود ہی ٹوٹ جاتا ہے، سوراخ بن جاتا ہے، مگر باہر سے اس کا رعب، اس کا فطری دبدبہ قائم رہتا ہے اور پھر یہ دل کا سوراخ گہر ا ہو کر خود میں اتنی جگہ بنا لیتاہے کہ یہاں وحی اترنے لگتی ہے، تو کبھی وحی والے کی حفاظت کے لیے مکڑی محبت بن جاتی ہے، کبھی کبوتر بسیرا کر لیتے ہیں، کبھی سانپ نظارے کی تڑپ بن جاتا ہے، تو کبھی کہسار مثل انگار ہو جاتا ہے، مگر ریزہ ریزہ ہونے کی جرات نہیں کرتا، تو کبھی صفا کی شان و شوکت میں بھی جلوہ نمائی ہوتی ہے۔
اس نے پھر قریب ہو کر، اس کی کمر کے گرد اپنی باہیں پھیلا دیں۔
’’تو حسینہء من ہم کوئی فرشتے تو نہیں۔۔۔‘‘
’’تو جانِ من ہم مخلوق اشرف بھی تو نہیں‘‘۔
یہ کہتے ہی وہ اس کی باہوں کے گھیرے سے نکل گئی مسکرا کر درختوں سے دور دیکھنے لگی۔
وہ سنجیدہ سا سروقد، چمکتی آنکھوں معصوم بڑی بڑی صدیوں پرانی آنکھوں والا اسے کسی درخت کے پیچھے کھڑا دکھائی دیا۔ اس کے مرمریں ہونٹوں پہ نظر پڑتے ہی اس کے بدن میں لہریں دوڑ پرتیں۔ اس کا دل چاہتا جائے اور بے ساختہ اس سے لپٹ جائے، اسے سرتا پا اپنے ہونٹوں سے نم کردے، اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس بدن سے، وہ صدیوں پرانی مٹی کی تہوں کو کھرچ ڈالے، جو اس کی آنکھوں میں دکھائی دیتی ہیں، جو اسے سوتن کی طرح ڈستی ہیں۔
اس نے پھرسے اس کے گھنگھریالے بالوں کی ایک زلف کو اپنی انگلی میں تھام لیا اور قریب ہو کر اس کے گال ہی پہ چھوڑ دیا۔
’’حسینہء من نبوت عورت پہ نہیں اتری، نبی بننے کی کوشش نا کرو، ولائت کا دور بھی نکل چکا، صور اسرافیل تک اب یوسف کی پاس داری سے ذلیخا کادامن تھام لینا ہی حسن کی معراج ہے، تم کس تلاش میں ہو‘‘۔
اس نے چند الٹے قدم بہت طاقت سے اٹھائے، انجانی قوت سے بولی۔
’’اس سے قید یوسف بہتر، جس سے تن کے در کھل جائیں اور من پیاسا رہ جائے، من کی وادیاں لہلہاتی ہیں تو تن کو تسکین ملتی ہے، تن سے من اور من سے تن کا سودا گھاتے کا سودا ہے، جس میں من کی ہار ہو، من اس اور جاتا ہی نہیں، من فطرت ہے اور فطرت فطرت سے نہیں لڑتی‘‘۔
اس نے قریب ہو کر پھر اس کے شانوں کو تھام لیا۔
’’یہ آئیڈیالوجی ہے، آئیڈیالوجی، بت پرستی۔۔۔‘‘
اس نے ایک ادا سے خودکو اس سے الگ کیا، اس کی نظر پھر آسمان پہ جا کے ٹھہر گئی۔
مشرق سے گہرے سرمئی بادل تیزی سے مغرب کی اور بڑھ رہے تھے، ہوا تھمی تھمی سی تھی، جیسے کسی سے بچھڑ گئی ہو، آسمان گہرا ہوتا جارہا تھا، جیسے کسی غم کو روئے بنا پی گیا ہو، اس کے باوجود ، وہ اتنا حسین، اتنا شفاف تھا کہ زمین خود اس کی اور کھچی چلی جارہی تھی، اس کے بس میں نہیں تھا کہ اٹھے ساری کششوںکے بندھن توڑے اور جا آسمان سے ملے، کبھی تو وہ ایک ہی تھے، آسماں تک بھی تو زمین کی حدت یہ پیغام لے کر جاتی ہے تو ہی وہ سرمئی ہو کر مور بن، اپنی مورنی کے لیے ہوائوں سنگ رقص کرنے لگتا ہے۔ مست رقص سب جل تھل ہو جاتا ہے۔ دونوں بھیگ کر ملتے ہیں، تو زمین کی کوکھ پھولوں پھلوں سے زندگی کو بہار رنگ کر دیتی ہے، تب آسمان اس محبت کی سائبانی و نگہبانی کرنے لگتا ہے۔
اسے اس چمکتی زمین میں ایک کھمبی بری بے کسی و بے بسی سے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ وہ حسرت سے اسے دیکھتی، اور آنکھوں کی رم جھم کو اپنی انگلی سے گالوں پہ پھلا دیتی ہے۔
ایک انگلی اس کے گال پہ آتی ہے۔
’’حسینہء من گویا میری بات سمجھ آگئی‘‘۔
وہ اس ہاتھ کو دھیرے سے پیچھے کر دیتی ہے۔
’’یوسف کو زلیخاں کی بات سمجھ آجاتی تو اسے بادشاہت بہت قبل مل گئی ہوتی، صحرائوں نے اپنی من مانی کی ہوتی تو پیاسے نا تڑپتے‘‘۔
اس نے اس کی کمر پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے بے قراری و بے ضراری سے کہا۔
’’حسینہء من یہ ظلم ہے‘‘۔
حسینہء من کراہت سے دونوں ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔
’’بڑے دریا دیر سے چڑھتے ہیں اور دور تک چلتے ہیں، گہرے کنوئوں سے پیاس بجھانے گہرائی تک جانا پڑتا ہے‘‘۔
حسینہء من کے روکھے سوکھے روئیے سے جیسے وہ چڑ گئی تھی۔ اس نے دور کھڑے ہو کر دونوں باہیں پھیلائیں اور بہت حقارت سے بولی۔
’’حسینہ من دیکھو، شیر شیر کے ساتھ جچتے ہی، باز بازوں کے ساتھ۔۔۔‘‘
حسینہء من مسکرائی ’’میں بھی تو ہمیشہ سے یہی کہہ رہی ہوں‘‘۔
وہ اور پیچھے کو ہوگئی ’’حسینہء من مگر تم بھول گئی کچھ پھل صرف طوفانوں میں مسمار ہونے ،تباہ بربادہونے کے لیے درختوں کا بوجھ بنتے ہیں، یوں ان کا سارا مان ٹوٹ جاتا ہے‘‘ وہ یہ کہہ کرواپسی کے رستے کو مڑ گئی اور جاتے ہوئے، اس پنجرے کا دروازہ کھول گئی جس میں اس نے اپنے وصل سے سدھائے جانور پال رکھے تھے۔
حسینہ من نے وہاں سے سیدھے ہاتھ جنگل کی اور بھاگنا شروع کر دیا۔ کبھی کوئی پیڑ اس کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتا تو کبھی کوئی جھاڑی اپنی گود میں چھپا لیتی۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہی تھی توں توں جنگل گہرا ہوتا جارہا تھا۔ توں توں تاریکی کے راز کھلتے جارہے تھے۔وہ سدھائے جانور جلد کہیں پیچھے ہی روشنی میں گم ہو گئے تھے۔ اب کوئی آواز، کوئی آہٹ اس کا پیچھا نہیں کررہی تھی۔ مگر وہ آگے بڑھتی ہی چلی گئی کہ جنگل کا کوئی کنارہ ضرور ہوتا ہے اس کا بھی ہوگا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رہی تھی، توں توں چڑھائی بھی چڑھ رہی تھی، دور دور تک اونچے، سرسبز و شاداب پودوں، درختوں، پیڑوں سے ڈھکے پہاڑ اپنے پورے رعب و حسن کے ساتھ اسے اپنی اور آتا دیکھ رہے تھے۔تھکن اس کے پور پور میں سما گئی تھی۔ مگر سفر رواں دواں تھا، کوئی کنارہ، کوئی آثار حیات، مگر دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے تھکن سے چُور خود کو خوف کے حوالے کر دیا اور چوٹی کی آخری اونچائی پہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
اسے دھندلاہٹ میں وہ صدیوں پرانی معصوم آنکھوں، مرمریں ہونٹ آتے دکھائی دیے۔ اس نے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں تھام لیا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا، اس نے اپنے کاندھوں سے شال اتار کر اسے اوڑھا دی، حدّت سے اس کی آنکھیں کھلیں تو برس پڑیں، اس نے اپنے ہونٹوں سے اس کے گال آنکھوں تک خشک کر دئیے۔
’’آگیا ہوں، لے چلو، اگنی کے پھیرے لے لو، یا تین بول پڑھوا لو، چاہو تو اونچے برجوں کے نیچے جا کے انگلی بھردو، تم فطرت ہو‘‘۔ حسینہء من نے اس کے سینے پہ سر رکھ دیا۔
ا سکے بعد وہاں بس دور سے اک دھواں دکھائی دیا اور برسوں بعد کچھ زمینی رازداں وہاں پہنچے تو اک آتش فشاں کا انکشاف ہوا جواب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اور اس سے ہیرے ، زمرد و طرح طرح کے قیمتی جواہر اکٹھے کیے جارہے تھے۔
کاجو فینی کی خالی بوتل