حسب وعدہ مجھ سے ملنے وہ کبھی آیا نہیں
حسب وعدہ مجھ سے ملنے وہ کبھی آیا نہیں
اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی حوصلہ فرسا نہیں
ہجر تھا اس کا بہت صبر آزما میرے لیے
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
دعوت نظارہ دے کر ایسا وہ غائب ہوا
میری آنکھوں نے دوبارہ پھر اسے دیکھا نہیں
کاٹنے کو دوڑتے ہیں مجھ کو یہ دیوار و در
جیسے میں تنہا ہوں ویسے کوئی بھی تنہا نہیں
مرتعش رہتا ہے اب ہر دم مرا تار وجود
کیا گزرتی ہے مرے دل پر کبھی کہتا نہیں
کر رہا ہوں اپنی یہ طرحی غزل نذر منیرؔ
ایسا شاعر آج تک میں نے کبھی دیکھا نہیں
کر کے اس کے وعدۂ فردا پہ برقیؔ اعتبار
میں کئی دن تک مسلسل رات بھر سویا نہیں