حق جتانے کا بھی تجھ میں حوصلہ نہیں رہا
حق جتانے کا بھی تجھ میں حوصلہ نہیں رہا
عشق ہی نہیں رہا یا پھر گلہ نہیں رہا
تیری یادیں ہی سبب ہے میری اس ہنسی کا اب
یعنی یادوں میں میں آنسو بھی ملا نہیں رہا
تجھ میں ہی ہے میری روشنی کا حل وگرنہ پھر
اک ستارہ ہوں تو کیوں میں جھلملا نہیں رہا
مطمئن ہے باغباں بھی جان کر کہ باگ میں
پھول کوئی بھی ہمیشہ ہی کھلا نہیں رہا
یہ ہو سکتا ہے تجھے اجالا ایسے ہی ملے
کیا ہوا تجھے تو کیوں مجھے جلا نہیں رہا
کچھ تری طرح ہی ہے حساب آسمان کا
فاصلہ سے دیکھتا ہے پر بلا نہیں رہا